Gunaghar || urdu novel by zeenia sharjeel || Epi 1

Gunaghar || urdu novel by zeenia sharjeel
Gunaghar || urdu novel by zeenia sharjeel

🌹: Gunahgar
By zeenia sharjeel
Epi # 1

"مجھے چھوڑ دو تمہیں خدا کا واسطہ ہے"
فرحین روتی ہوئی، مسلسل گڑگڑاتے ہوئی التجا کر رہی تھی مگر وہ اپنی ساری انسانیت بھلائے ہوئے،، اس پر جھکا ہوا اپنی ہوس مٹانے میں مگن تھا باہر سے آتی تیز میوزک کی آواز فرحین کی چیخوں اور آہ و پکار کو دبا رہی تھی۔۔۔ مسلسل مزاحمت کرتی فرحین کبھی اس کا منہ تو کبھی بال نوچتی،، تو کبھی اس کی شرٹ اپنی مٹھیوں سے دبوچ رہی تھی مگر اس وقت اس شخص پر شیطان غالب تھا۔۔۔ وہ اپنی ہوس مٹا کر فرحین کے سسکتے تڑپتے وجود سے پر ہٹا تو فرحین نے پاس پڑے مٹی میں اٹے اپنے دوپٹے سے اپنا نیم برہنہ وجود ڈھانپنے لگی

"میری عزت کو پامال کرکے تم کیا سمجھتے ہو، میں بدنامی کے ڈر سے چپ ہو کر بیٹھ جاؤ گی ابھی باہر جاکر پوری یونیورسٹی کے سامنے تمہاری اصلیت سب کو بتاؤں گی"
تھوڑی دیر بعد فرحین اپنے آنسو صاف کر کے دوپٹہ اپنے گرد لپیٹتے ہوئے باہر جانے لگی

"رکو فرحین یہ سب کچھ مجھ سے انجانے میں ہوا ہے پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو،، میں شرمندہ ہوں"
وہ فرحین کا راستہ روکتے ہوئے کہنے لگا اب اس کے چہرے پر واقعی شرمندگی کے آثار نمایاں تھے

"تمہارے شرمندہ ہونے سے میری عزت واپس نہیں آسکتی،، لٹیرے ہو تم،، انسانی روپ میں بھیڑیے۔۔۔ سب کو تمہارا گھناونا روپ دکھاؤں گی تاکہ میری طرح تم بھی اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہو"
فرحین اس پر تھوکتی ہوئی حقارت بھری نظر ڈال کر دروازے کے پاس پہنچی تبھی اس نے فرحین کو روکنے کے لیے دونوں بازوں سے پکڑا 

"فرحین پلیز ایک دفعہ میری بات سن لو،، میں۔۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔۔ میں اپنی غلطی کا مداعوا تم سے شادی کی صورت کرنے کے لیے تیار ہوں مگر پلیز کسی کو کچھ مت بتانا"
اس نے فرحین کو روکتے ہوئے کہا اس وقت ان لوگوں کی الوداعی پارٹی تھی باہر سارے اسٹوڈنٹس اور ٹیچرز موجود تھے

"غلطی۔۔۔ تم اسے غلطی کہتے ہو،، گناہ کیا ہے تم نے۔ ۔۔ گناہ گار ہو تم۔۔۔ تم جیسے گھٹیا، نفس کے غلام سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں خودکشی کر لوں"
وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی کلاس روم کے دروازے کھولنے لگی تبھی اس نے دوبارہ فرحین کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا۔۔۔ فرحین فوری طور پر اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور پیچھے پڑی ہوئی شیشے کی میز پر جاگری۔ ۔۔ یوں پیچھے میز پر گرنے سے فرحین کے سر کے پچھلے حصے سے خون نکلنے لگا

"او گاڈ فرحین یہ،، یہ کیا ہوگیا۔۔۔ ایم سوری میں ایسا نہیں چاہتا تھا"
وہ فرحین کے پاس پہنچ کر اسے دیکھتا ہوا کہنے لگا ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔ اتنے میں اسے محسوس ہوا جیسے کلاس روم کی طرف کوئی آرہا ہے وہ بنا سوچے سمجھے کلاس کے دوسرے دروازے سے باہر نکل گیا

اس واقعے کو گزرے ہوئے چھ سال ہو چکے تھے مگر آج بھی جب اسے یہ واقعہ یاد آتا تھا تو نئے سرے سے وہ اپنے آپ کو ندامت میں گھرا ہوا محسوس کرتا تھا۔۔۔ عام دنوں میں تو وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیتا تھا مگر خاص اس دن جس دن اس کے ہاتھوں فرحین کی عزت اور جان گئی تھی،،، اس کا ضمیر اس پر کوڑے برساتا اور چیخ چیخ کر اسے گناہگار کہتا

****

"گڈ مارننگ پاپا" منال فرمان کے گلے میں لاڈ سے دونوں ہاتھ ڈال کر کہتی ہوئی ناشتے کے ٹیبل پر بیٹھ گئی

"گڈ مارننگ میرا بیٹا،، یونیورسٹی نہیں جانا آج آپ نے" 
فرمان نے منال کے کیجول حلیہ کو دیکھتے ہوئے اس سے سوال کیا

"موڈ نہیں ہورہا پاپا آج۔۔۔۔ ویسے بھی آج کوئی امپورٹنٹ کلاس نہیں ہے" منال ناشتہ کرتی ہوئی فرمان کو بتانے لگی،،، وہ بھی اپنی بیٹی کی موڈی طبیعت سے اچھی طرح واقف تھا اس لیے بنا کچھ کہے ناشتہ کرنے لگے 

"اور عنایہ،، وہ کہاں پر ہے وہ بھی کالج نہیں جائے گی آج" اب فرمان ناشتہ لاتی ہوئی بوا کو دیکھتے ہوئے پوچھنے لگے

"بھول گئے کیا آپ آج کا دن،، کمرے میں بیٹھی ہوئی اپنے ماں باپ کے مرنے کا سوگ منا رہی ہوگی،، پہلے اس کی سیاہ بختی اپنے ماں باپ کو نگل گئی،،، اب ہر سال رو رو کر ڈرامے کرنا سمجھ میں نہیں آتا اس لڑکی کا تو"
بوا کی بجائے عشرت نے نہوست سے کہتے ہوئے چائے کا کپ منہ کو لگایا

"عشرت کچھ تو خدا کا خوف کیا کرو، اس معصوم نے تمہارا ایسا کیا بگاڑ دیا ہے جو ہر وقت اس کو کوستی رہتی ہو،،، آئندہ میں تمہارے منہ سے یہ دقیانوسی باتیں نہ سنو"
فرمان نے عشرت کو وارن کرتے ہوئے کہا

"اب ناشتے کی ٹیبل پر اس روتی شکل کو مت لے کر آ جانا۔۔۔ ورنہ پورے گھر میں آج نحوست پھیلی رہے گی"
عشرت فرمان کو اٹھتا ہوا دیکھ کر بولی،، وہ افسوس بھری نظر اپنی بیوی پر ڈال کر عنایہ کے روم میں چلا گیا       

"اوہو مما کیا آپ نے صبح ہی صبح چک چک لگا کر رکھی ہے ناشتہ تو سکون سے کرنے دیا کریں"
منال عشرت کے مستقل بولنے پر اریٹیٹ ہو کر اس سے بولی اور پھر اپنے ناشتے میں مگن ہوگئی

****

"عنایہ میرا بچہ،، کیا کر رہا ہے کالج نہیں جانا آج آپ نے" 
فرمان کی آواز پر عنایہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔۔ ہاتھ میں پکڑی ہوئی یاسین شریف میز پر رکھ کر وہ صوفے سے اٹھ کر فرمان کے پاس آئی

"کچھ نہیں کر رہی تھی ماموں جان،، بابا مما کی یاد آ رہی تھی تو ان کو پڑھ کر بخش ہی تھی" 
وہ دوپٹے کو نماز کے اسٹائل میں لپیٹے ہوئے فرمان کو اسکی کا بات کا جواب دینے لگی۔۔۔ اس وقت وہ فرمان کو بالکل بشریٰ لگی 

عنایہ ہوبہو بشریٰ سے ملتی تھی بالکل اسی کی طرح خوبصورت۔۔۔ فرمان نے آگے بڑھ کر اپنی بھانجی کو گلے لگایا

"یقیناً آج آپ اپنے کالج نہیں جائے گی چلیں پھر اپنے ماموں جان کے ساتھ ناشتہ کر لیں" فرمان اسے باہر ناشتہ کرنے کے لئے لے کر جانے لگا۔۔۔ اسے معلوم تھا تھوڑی دیر بعد وہ آفس چلا جائے گا اور پھر عنایہ عشرت کے ڈر سے سارا دن اپنے کمرے میں موجود رہے گی ایسا شروع سے ہی ہوتا آیا تھا۔۔۔ جس دن خالد اور بشریٰ کی برسی ہوتی،، عشرت کا رویہ عنایہ سے عام دنوں کی بانسبت اور زیادہ سخت ہو جاتا۔۔۔ وہ ہر کسی چھوٹی سی بات کو لے کر عنایہ کو ڈانٹتی اس پر چیختی چلاتی اور جب عنایہ کا دل بھر آتا اور وہ روتی تو عشرت اس کو رونے بھی نہیں دیتی،،، عشرت کو لگتا کہ عنایہ کے رونے سے اس کی نہوست کے اثرات پورے گھر پر پھیل جائیں گے     

"ماموں جان مجھے اپنے کمرے میں ہی رہنے دیں،، ویسے بھی ابھی بھوک نہیں لگی۔۔۔ اگر بھوک محسوس ہوگی تو بوا سے کہہ دوگی" 
بڑی ہونے کے بعد جب سے عشرت کا رویہ عنایہ نے محسوس کیا تھا،، تب سے وہ آج کے دن کوشش کرتی تھی کہ عشرت کے سامنے نہ آئے

"ٹھیک ہے میں بوا سے کہہ دیتا ہوں وہ آپ کا ناشتہ یہی بھیج دیں گی۔۔۔ بیٹا آپ یوں اس طرح حساس مت ہوا کرو۔۔۔۔ لوگوں کی باتوں اور رویوں کو اپنے دل سے لگانا چھوڑ دو اور ناشتہ لازمی کر لینا ورنہ آپ کے ماموں جان کو برا لگے گا"
فرمان عنایہ کو سمجھا کر اس کا گال تھپتھپاتا ہوا اس کے کمرے سے نکل گیا

فرمان اور بشریٰ دو بہن بھائی تھے دونوں ہی میں بچپن سے بہت پیار تھا۔۔۔ ان کے والدین نے اپنے بچوں کی شادی اپنی آنکھوں کے سامنے کردی 

عشرت عادتاً سخت طبیعت کی مالک ہونے کے ساتھ ساتھ فرمان سے شکل و صورت میں کم تر تھی اور بشریٰ سے اس کا روایتی نند بھاوج والا رشتہ تھا۔۔۔۔ جس کی بڑی وجہ بشریٰ کا رنگ روپ تھا،،، بشری خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دل کی مالک تھی،،، اسے عشرت کی طبیعت کا اندازہ بخوبی ہو گیا تھا اکثر وہ اس کے رویے کو نظر انداز کر دیتی تاکہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو۔۔۔۔ اکثر محفلوں میں یا کسی تقریب میں جب عشرت کے سامنے بشریٰ کو سراہا جاتا تو عشرت اس سے اندر ہی اندر جلتی رہتی۔۔۔ عشرت کے ہاں جب منال کی پیدائش ہوئی تو اس نے منال کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ رنگ روپ میں اپنی پھپھو نہ سہی مگر باپ کا جیسی تھی،،، صاف رنگت والی منال گھر بھر میں سب کی لاڈلی تھی۔۔۔۔ 

منال جب تین سال کی تھی تب بشریٰ کے گھر میں عنایہ کا جنم ہوا مگر وہ دن بدقسمتی سے بشریٰ کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا اچانک دل کے پڑنے والے دورے سے بشریٰ کا شوہر خالد حقیقی الہی سے جا ملا۔۔۔۔ سب ہی کو اس کی جواں موت کا بہت دکھ تھا۔۔۔۔ عنایہ کی پیدائش والے دن خالد کی موت کو لے کر لوگوں میں چہ میگویاں ہونے لگی۔۔۔ لوگوں نے عنایہ یعنی بشریٰ کی بیٹی کو منحوس کہنا شروع کردیا ایسی باتیں بشریٰ کے دل کو چیر دیتی،، بشریٰ کی ساس نے بھی اسے عدت پوری کئے بغیر اپنے گھر سے نکال دیا ان کا بھی کہنا تھا کہ یہ بچی منحوس ہے،،، یوں بشریٰ روتی ہوئی اپنی نومولود بچی کے ساتھ فرمان کے گھر پر آگئی۔۔۔ جس پر عشرت کا اچھا خاصا منہ بن گیا اور اس بات کا اظہار وہ وقفے وقفے سے بشریٰ پر طنز اور طعنوں کی صورت کرتی رہتی۔۔۔ 

عشرت کو عنایہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی کیونکہ عنایہ بشریٰ کا دوسرا عکس تھی یعنی رنگ روپ شکل و صورت میں وہ اپنی ماں کی طرح خوبصورت تھی۔۔۔ عشرت عنایہ کا مقابلہ اپنی بیٹی منال سے کرنے لگی۔۔۔ وقت آہستہ آئستہ سے گزرتا رہا خالد کی موت کو اب آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا تھا۔۔۔ خالد کی برسی والے دن اچانک معمولی سے بخار سے بشری کی طبیعت خراب ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئی۔۔۔ اس واقعے کے بعد سے عشرت نے عنایہ کو منحوس،، سیاہ بخت،،، بدقسمت کہنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے عنایہ کی شخصیت میں کانفیڈنس کی کمی رہ گئی،، فطرتاً وہ بچپن سے بھی ڈر پوک تھی، ،، اندھیرے میں کہیں جانے سے یا اکیلے اندھیرے میں سونے سے ڈرتی تھی بارش سے اسے خوف آتا اکثر راتوں کو چیخیں مار کر اٹھ جاتی،،، اگر ہارر مووی کا سین دیکھ لیا تو کہی کہی دن تک ڈرتی تب بوا اس کے پاس سوتیں

عنایہ کے مقابلے میں منال کافی بولڈ اور کانفیڈنٹ تھی ساتھ ہی وہ عنایہ پر اپنے تین سال بڑے ہونے کا روعب جماتی اپنی ماں کی طرح وہ بھی عنایہ کو خاص پسند نہیں کرتی تھی۔۔۔۔ فرمان کے علاوہ گھر میں ایک بوا ہی تھی جو عنایہ کا خیال رکھتی تھی وہ اس گھر کی پرانی اور وفادار ملازمہ تھی۔۔۔ منال یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی جبکہ عنایہ ابھی سیکنڈ ایئر میں موجود تھی اپنی طبیعت کے پیش نظر اس کی کالج میں ایک ہی دوستی جو اس کے سب حالات سے واقف تھی

****

"السلام علیکم آنٹی کیا حال ہیں آپ کے اور کہاں ہیں آپ کے دونوں نالائق بیٹے"
نوفل نے گھر میں قدم رکھتے ہی ثروت سے نہال اور نمیر کے بارے میں پوچھا

"وعلیکم اسلام جیتے رہو، میرے خیال میں وہ دونوں تو نالائق تھے ہی مگر اتنے دنوں بعد تم نے اپنی شکل دکھا کر کم نالائقی کا ثبوت نہیں دیا۔۔۔ کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے"
ثروت نے مسکراتے ہوئے نوفل سے پوچھا اس کی بات سن کر نوفل بھی مسکرا دیا 

"بس آنٹی جاب ہی ہے جس کی وجہ سے بزی تھا آج ہی فرصت ملی ہے سوچا نہال اور نمیر سے بھی ملاقات ہو جائے" 
نوفل صوفے پر بیٹھے ہوئے ثروت کو بتانے لگا

"جاب تو تمہاری واقعی بہت ٹف ہے کیا ضرورت تھی اتنی رسکی جاب کرنے کی،، نہال اور نمیر کی طرح سیدھا سیدھا بزنس سنبھال لیتے۔۔۔خیر میں جانتی ہوں پولیس میں جانے کا تمہارا شوق تھا،،، اللہ اگے تمہارے مقاصد میں تمہیں کامیاب کرے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے۔۔۔ بلا کر لاتی ہوں دونوں کو۔۔۔ یہ بتاؤ فریدہ کیسی ہے اور کب تک اس کا پاکستان آنا ہو رہا ہے"
ثروت صوفے سے اٹھتی ہوئی نمیر اور نہال کو بلانے کے لیے جانے لگی ساتھ ہی اپنی دوست کے بارے میں بھی پوچھا جو کہ نوفل کی والدہ تھی

"امی بھی ٹھیک ہیں الحمدللہ کل ہی ان سے بات ہوئی ہے فوراً تو آنے کا پروگرام نہیں ہے شاید خرم کے ساتھ اب کی بار چکر لگائے"
ثروت نوفل کی بات پر سر ہلا کر نمیر اور نہال کو بلانے چلی گئی

ثروت اور عشرت دونوں سگھی بہنیں تھیں عادتاً ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔۔۔ ثروت جتنی رکھ رکھاؤ والی خوش اخلاق اور ملنسار تھی اس کی چھوٹی بہن عشرت اتنی ہی بد مزاج اور تنگ نظر تھی،، اچھا شوہر ملنے اور کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہنے کے باوجود بھی اس کی طبیعت پر خاص فرق نہیں پڑا۔۔۔ اس کے برعکس ثروت کی شادی ایک نارمل گھرانے میں ہوئی تھی ثروت کے شوہر حسن کی بینک میں اچھی جاب تھی مگر بوڑھے ماں باپ کے ساتھ دو چھوٹی بہنوں کی ذمہ داریاں بھی اس کے اوپر تھی۔۔۔ ثروت نے حسن کی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ہر قدم پر اس کا ساتھ دیا۔۔۔ نہال کی پیدائش پر حسن اپنی دونوں بہنوں کی شادیوں سے فارغ ہوا تو ایک سال بعد ہی حسن اور ثروت کے گھر نمیر کی پیدائش ہوئی

نہال اور نمیر کی پیدائش میں ایک سال کا فرق تھا۔۔۔ نہال عادتاً سنجیدہ اور کم گو تھا جبکہ اس سے ایک سال چھوٹا نمیر،، چھوٹا ہونے کے باعث ثروت کا لاڈلا ہونے کی وجہ سے مزاج کا تھوڑا ضدی تھا۔۔۔ 

نہال اور نمیر دونوں بھائیوں کی نوفل سے اسکول کے دور سے دوستی تھی۔۔۔ کالج اور یونیورسٹی میں بھی ان تینوں نے ایک ساتھ پڑھا تھا یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان تینوں کی دوستی گہری ہوتی گئی۔۔۔ چھ سال پہلے ہی وہ تینوں یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہوئے تھے۔۔۔۔ 

حسن کی ریٹائرمنٹ کے بعد نہال اور نمیر نے سوفٹوئیر کا بزنس اسٹارٹ کیا جبکہ نوفل نے پولیس لائن جوائن کی۔۔۔۔ ایک سال پہلے ہی حسن کا انتقال ہوا تھا جس کی وجہ سے ثروت خود کو تنہا محسوس کرتی اب وہ نہال کی شادی کا سوچ رہی تھی اور دوسری طرف وہ نوفل کو بھی یہی مشورہ دیتی تھی 

نوفل فریدہ کے شوہر کی پہلی بیوی کا بیٹا تھا۔۔۔ شوہر سے کچھ ذاتی اختلافات کے باعث نوفل کی ماں اپنے شوہر کے ساتھ نباہ نہیں کر سکی اس لیے تین سالہ نوفل کو شوہر کے پاس ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔ فریدہ نے نوفل کی پرورش کی۔۔۔۔ فریدہ کو نوفل سے اگر سگھی ماں جیسا لگاؤ نہیں تھا مگر اس نے کبھی بھی سوتیلی ماؤں جیسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا۔۔۔ فریدہ نوفل کا خیال رکھتی اسے اچھی بری بات سمجھاتی۔۔۔ اسی طرح نوفل بھی اسکی عزت و احترام میں کمی نہیں آنے دیتا۔۔۔۔ 

فریدہ کے شوہر کے انتقال کے باوجود نوفل یا فریدہ کہ رویہ یا رشتے میں فرق نہیں آیا البتہ خرم (نوفل کا چھوٹا بھائی) کو تین سال پہلے جرمنی میں جاب مل گئی تھی جس کی وجہ سے وہ وہی کا رہائشی ہوگیا اور اس نےفریدہ کو اپنے پاس بلا لیا تھا فریدہ سال ڈیڑھ سال بعد نوفل کے پاس چکر لگا لیتی۔۔۔ گھر میں اکیلے ہونے کے باعث نوفل یا تو نہال اور نمیر کے گھر پایا جاتا یا پھر نہال اور نمیر اس کے گھر موجود ہوتے

جاری ہے

Post a Comment

0 Comments