Ishq main Mar Jawaan || romantic urdu novel || Episode 7
عشق میں مرجاواں 🌹
قسط نمبر 7
مصنفہ حفضہ جاوید
انابیہ کو تیار کرنے کے لیئے تاج کے ساتھ تین چار لڑکیاں آئی۔ اس کے ولیمے کا لباس بے انتہا خوبصورت تھا۔نیلے رنگ کا مخملی بے انتہا خوبصورت لباس پر ہیرے لگے ہوئے تھے بیڈ پر پڑا ہوا چمک رہا تھا. انابیہ نے یہ لباس دیکھا تو وہ سب سے پہلے اسے یہ لگا کے جیسے یہ تاروں کو دیکھ رہی ہے کیونکہ لباس چمک رہا تھا۔گوہر خواب گاہ میں آئی اور اس کے پاس بیٹھ گئی گوہر اس کو بتانے والی تھی کہ آج اس کا کتنا قیمتی دن ہے.
” تمہیں معلوم ہے انابیہ آج کے بعد تم پر اس قبیلے کی ایک ذمہ داری آجائے گی. اس قبیلے کی زندگی تمہاری زندگی سے جڑ جائے گی. تمہارا ہر ایک عمل قبیلے پر اثر انداز ہوگا. “
" گوہر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ یہ سب خواب ہے. انسان ایسے خواب دیکھتا رہتا ہے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں خواب سے اٹھ جاوں گی اور یہ سب کچھ بدل جائے گا۔"
"ایسا کچھ نہیں ہے انابیہ۔یہ سب حقیقت ہے تم بہت جلد یہ بات سمجھ جاؤ گی آہستہ آہستہ تم اس دنیا میں رہنے کی عادی ہو جائے گی۔تم آرام سے تیار ہو جاؤ پھر تمہیں ہم باہر لے کر جائیں گے. یہاں قبیلے کی عورتوں سے ملو گی تو بہت خوش ہو جاؤ گی۔ پھر تمہارے ساتھ ہم لوگ تمہارے والد کی طرف جائیں گے۔"
"جی گوہر۔"
انابیہ لباس تبدیل کر کر آئی تو اس کو تیار کیا گیا۔گوہر اس کا تاج لے کر اس کے پاس آئی۔"انابیہ تمہارا تاج نیلا ہو گیا ہے۔یعنی تم اور جبار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ان کی معنی خیز بات پر تمام لازمائیں ہنسنے لگ گئی ۔انابیہ نے شرم سے چہرہ چھبا لیا۔
"ویسے جبار نے کیسے اپنی محبت کا اظہار کیا انابیہ۔اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ تمہیں بڑا تنگ کیا ہوگا۔"
گوہر نے اس کے ساتھ شرارت کی۔انابیہ نے مہندی والے ہاتھوں سے چہرہ چھبا لیا۔اسے تاج نے بہت پیاری مہندی لگائی تھی۔
"اچھا تنگ نہیں کرتے ہم اپنی شہزادی کو۔تاج باہر سب کو بتا دو ہم شہزادی کو لا رہے ہیں۔"
گوہر نے ملازما کو اس کے پیروں میں ہیروں کی پائل پہنانے کا کہا اور خود باہر چلی گئی ۔
_________________________________
انابیہ کا لباس بہت سی ملازموں نے تھام رکھا تھا ۔جبکہ اسے بازو سے گوہر نے پکڑا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ملکہ یعنی کے جبار کی والدہ بھی تھی جو اسے سیڑھیوں سے نیچے لا رہی تھی.
انابیہ کو نیچے لایا گیا تو محل کے وسط میں خوبصورت طریقے سے تیاری کی گئی تھی. بے تحاشا عورتیں یہاں موجود تھیں. وہ اپنی شہزادی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے منتظر تھی۔ ملکہ نے انابیہ کو تخت پر بٹھایا جو بالکل وسط میں رکھا گیا تھا ۔اس کے ساتھ ہی بہت ساری عورتیں آتی۔ اس کے لباس کے ساتھ جو بڑی سی نیلی چادر تھی اس کا کونہ تھام کر چوم کر چلی جاتی۔انابیہ کو اتنے سارے لوگوں میں یہ توجہ اچھی نہیں لگ رہی تھی۔سردار بڑے شہزادے اور جبار کے ساتھ ان سب کے درمیان آئے۔بہت سی عورتوں نے اپنے چہرے چھبا لیئے۔سردار اپنے لوگوں سے مخاطب ہوئے۔
" میری پیاری بہنوں آج سے ہماری ایک اور بیٹی ہے. آپ کی شہزادی ہماری بیٹی انابیہ جبارخان۔آج ہم اپنی بیٹی سے وعدہ لیتے ہیں کہ اسے اپنی جان بھی دینی پڑی مگر وہ ہمارے لوگوں سے وفادار رہے گی۔ہمارے لوگوں کا راز وہ اپنی دنیا میں کسی کو نہیں بتائیں گی۔جبار ہماری بیٹی کو خاندانی چادر پہناو۔انابیہ بیٹا اٹھ کر سامنے آو اور ہمارے ساتھ محل کے دربار میں چلو۔بڑی شہزادی بیٹی کو نقاب کروا دو۔"
گوہر کو حکم دے کر سردار اتر گئے۔بڑے شہزادے بھی ان کو ساتھ ہی دربار کی طرف بھڑ گئے. جبکہ جبار چادر لے کر آیا اور انانیہ کو اس میں پورا ڈھک دیا ۔گوہر اس کے قریب آئی اور اس کے حجاب سے ہی اس کو نقاب کروایا۔
"چلو جاو انابیہ آج تم نے اپنا امتحان دینا ہے۔آج تم ہمارے لوگوں سے وعدہ کرو گی جو تمہیں تا عمر نبھانا ہے۔"
گوہر نے اس کا ہاتھ جبار کے ہاتھ میں دیا جو اسے تھامے دربار کی طرف چلا گیا۔انابیہ دربار میں داخل ہوئی تو یہاں بے تحاشا مرد حضرات کھڑے تھے۔سب کی نظریں نیچی جھکیں ہوئی تھی۔ جبار انابیہ کو لئے سامنے بڑے سے تخت پر آیا جہاں اس کی کرسی اپنے باپ کے ایک طرف رکھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ہی انابیہ کی کرسی رکھی گئی تھی.
انابیہ کو تخت پر بٹھانے کے بعد یہ لوگوں کی طرف متوجہ ہوا. ہارون اپنے ہاتھ میں ہیرے کی ایک تھالی لے کر آیا جس میں خوبصورت ترین نیلے رنگ کا ہیرا پڑا ہوا تھا. اسی تھال میں ایک کاغذ بھی رکھا گیا تھا جس پر کچھ سطریں لکھی ہوئی تھی. اور اس تھلی انابیہ کے لیے ایک خوبصورت پیلے رنگ کی انگوٹھی تھی۔ سردار اور بڑے شہزادے اپنی اپنی کرسی پر بیٹھے اور جبار کو اشارہ کیا کہ ان اباہ کو اپنا حلف اٹھانے کو کہے.
” انابیہ میری شہزادی آپ کوئی حلف اٹھانا ہے اور ساری زندگی کے لیے اٹھانا ہے. اب ہم سے دو نہیں رہیں گے ہمارے ساتھ یہ تمام لوگ بھی ہوں گے ہمیں انہیں بالکل ایسے ہی رکھنا ہے جیسے یہ ہمارے خاندان والے ہو. ہماری اولاد سے پہلے یہ لوگ آنے چاہیں۔ کیونکہ یہ ہماری رعایا ہیں اور رعایا اپنے خاندان سے پہلے آتی ہے۔ لیجے حلف اٹھائیے۔"
ہارون انابیہ کے سامنے یہ تھالی لے آیا جس میں جو سطریں لکھی گئی تھی وہ اردومیں تھی تاکہ اسے آسانی ہو.
پہلے تو انابیہ کے ہاتھ کانپے مگر یہ جانتی تھی کہ راہ فرار نہیں ہے اس لیے چپ چاپ یہ کاغذ اٹھا لیا اور پڑھنا شروع کیا.
” سلام میرے عزیز لوگو. میں انابیہ جبارخان اسے اس بات کا حلف اٹھاتی ہوں کہ جبارخان میرے شہزادے ہیں. ان کے ساتھ کھڑی میں تم سب لوگوں کی ملکہ اور شہزادی ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ مجھے چنا گیا ہے جبار شہزادے کی شہزادی بننے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس بات کا حلف لیتی ہوں کہ جب میں اس دنیا سے اپنی دنیا میں اپنے والدین نے اپنے خاندان سے ملنے جاؤں گی تو تم سب کا راز میرے ساتھ ہی دفن ہو جائے گا. اس دنیا کا ہر ایک راز میرے سینے میں ہی رہے گا وہ کبھی باہر نہیں نکلے گا. تم سب لوگوں کی پہچان اب میری پہچان ہے۔ تم سب پر اگر کوئی خطرہ آئے گا تو تم سب سے پہلے وہ خطرہ میں اپنے اوپر لینا چاہوں گی. میرے شہزادے یا شہزادے کے خاندان کو میری ضرورت پڑے گی تو میں اپنی جان بھی دے دوں گی. - - - - - - - - - - - - میں اس بات کا بھی حلف لیتی ہوں کہ شہزادے کی اولاد کو بہت اچھی تربیت دوں گی اور اسے یہ سکھاؤں گی کہ تم سب لوگ اس کے اپنے ہوں۔ شہزادے سے جڑی ہر چیز اب مجھ سے جڑی ہے. شہزادے پر کیا گیا ہر وار مجھ پر ہوگا۔ ہمیشہ تم لوگوں کے ساتھ وفادار رہوں گی یہ میرا وعدہ ہے۔"
یہ کہہ کر انابیہ نے یہ کاغذ واپس تھالی رکھ دیا۔ بڑے سردار اٹھے اور اس کے پاس آئے. انابیہ نے یہ بات نوٹ ہی نہیں کی تھی کہ اس کے تاج میں ہیرے کی ایک جگہ خالی تھی. بڑے سردار نیلے رنگ کا ہیرا اس کے تاج میں جڑ دیا جس کے تاج کے ساتھ ملنے سے ہیں اس کے تاج میں نیلے رنگ کی روشنی پیدا ہوگئی ایسا لگا جیسے کسی نے اس تاج میں جان ڈال دی ہو. بڑے سردار پیچھے ہوئے اور جبار آگے آیا اس کے ہاتھ پر خوبصورت نیلے رنگ کی انگوٹھی تھی۔ اس کے ساتھ کی ہیں میچنگ انگوٹھی تھالی میں رکھی ہوئی تھی.. جبار نے یہ انگوٹھی اٹھاکر انابیہ کی انگلی میں پہنا دی جس کے بعد تمام دربار میں شور پڑ گیا.
” شہزادی کے مبارک قدم سب کو مبارک ہوں خدا کرے ہماری شہزادی کو لمبی عمر عطا ہو. " انابیہ چپ چاپ یہ سب شور دیکھتی رہیں کیونکہ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔آخر جبار اس کے پاس آیا اور اسے واپس لے جانے کے لیئے اٹھایا۔
"جبار تم شہزادی کو لے کر ان کے گھر جاو ،ہم یہاں سب دیکھ کر آتے ہیں۔جاتے جاتے بستی اور اپنے لوگوں میں تحفے بانٹ جانا۔"
بڑے شہزادے نے جبار کو کہا اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔جبار انابیہ کا ہاتھ تھامے اسے دربار سے باہر لے آیا۔
__________________________________
جبار اسے لیے محل سے باہر آگیا اس کے ساتھ گوہر اور ملکہ بھی تھی۔ آج ان کا سارا خاندان ہی تقریبا انابیہ کے گھر جا رہا تھا. صرف دادی جان نہیں جا رہی تھی اس کی وجہ ان کی طبیعت ٹھیک وہ زیادہ لمبے سفر کے لیے کسی کی طرف نہیں جاتی تھی. ملکہ نے جبار کو اشارہ کیا کہ تحائف رکھوا دیے۔
جبار میں اثبات میں سر ہلایا تو یہ لوگ سواری کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ انابیہ ہمیشہ جبار کے ساتھ ہی سفر کرتی تھی اس لئے اسے نہیں معلوم تھا کہ یہاں کی عورتیں کس چیز پر سفر کرتی ہیں. اس کو تو یہ بات بھی معلوم نہیں تھی کہ اس کی دنیا سے یہ دنیا بہت مختلف ہے. یہاں کوئی ٹیکنالوجی نہیں تھی. رات گئے یہاں پر لائٹ بل کی روشنی نہیں بلکہ چراغ جلتے تھے۔ شہر میں دور تک آگ جلا کر روشنی کی جاتی تھی. انابیہ کو یہ بات بھی معلوم نہیں تھی کہ یہاں کے لوگ ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہیں. یہاں انسانوں کی ماڈل دنیا جیسا کچھ بھی نہیں تھا یہ لوگ گھوڑوں پر سفر کرتے تھے اور ابھی بھی پرانے دور کی طرح ہی بگھیاں استعمال ہوتی تھی۔
بھگی ان کے قریب آ کر کھڑی ہوئی جو سفید رنگ گئی تھی. ملازم نے دروازہ کھولا ملکہ اور گوہر دونوں اس میں سوار ہوگئی.
” جبار انابیہ کو نہیں لے کر آؤ گے اندر۔"
" نہیں گوہر آپ لوگ جائے یہ میرے ساتھ ہی گھوڑے پر آئے گی. میں چاہتا ہوں یہ گھوڑے کا سفر کرنا سیکھ جائیں۔ جتنی جلدی یہ گھوڑے پر سفر کرنا سیکھ جائیں گی اتنی جلدی یہ میرے مقابل آ سکیں گی۔ آپ تو جانتی ہیں انہوں نے ابھی ایک جنگجو کی طرح بھی تربیت لینی ہے. آخر کو یہ جبار شہزادے کی بیوی ہیں۔"
جبار نے کندھے سے اسے تھام کر ساتھ لگایا اور بڑے فخر سے کہا۔
" ٹھیک ہے تم اس کو لے کر اور راستے میں تحائف بانٹتے جانا. “
بگی کا دروازہ بند ہوا تو جبار اسے لے کر گھوڑے پر سوار ہوا. یہ وہی کالے رنگ کا گھوڑا تھا.جبار نے اپنے ملازم کو اشارہ کیا جو اس کے ساتھ گھوڑے پر تھا ان کے ہاتھ میں تھیلیاں تھی جس میں سونے کے سکے تھے. دوسرے ملازموں کے پاس تھیلیوں میں بے تحاشا تحائف تھے۔ یہ جیسے جیسے راستے سے گزر رہے تھے انابیہ کے سامنے کچھ انسان آرہے تھے اور کچھ ایسے لوگ جن کی انگلیاں تھی ہی نہیں یا تھی تو چار انگلیاں۔ ایک پل انابیہ کو لگا کے ان میں بہت سارے لوگ انسان ہیں. جبار نے انابیہ کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی۔
" سکے پھینکنا شروع کریں۔"
انابیہ اور جبار دونوں نے تھیلیوں میں ہاتھ ڈال کر راستے میں سکے پہننا شروع کر دیئے جو لوگ اٹھا رہے تھے ۔یہ بادشاہ کی طرف سے سب لوگوں کو خوشی میں انعام دیا جارہا تھا ۔ملازم گزرتے ہوئے لوگوں کو تحائف پکڑا رہے تھے۔ انابیہ کو یہ سب خواب ہی لگ رہا تھا۔ اس نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ زندگی ایسا رخ بھی لے گی۔
__________________________________
دربار پر آتے ہی یہ لوگ دوسرے دنیا میں آگئے انابیہ آج بھی سمجھ نہ پائی کہ جبار نے کیسے اس کے اردگرد پر پھیلائے اور اسے اس کی دنیا میں لے آیا۔ گوہر اور ملکہ بھی اس کے ساتھ تھی۔
یہ جیسے ہی دربار سے نکلے ہارون سامنے کھڑا تھا اور شاندار نیو مافل گاڑیاں ان کے سامنے تھی۔ انابیہ سمجھ نہ پائی کی اس کی دنیا میں بھی ان کے پاس اتنی دولت کیسے ہے۔ گوہر اور ملکہ نیچے والی گاڑی میں بیٹھی جب کہ جبکہ جبار نے انابیہ کے لیے آگے والی گاڑی کا دروازہ کھولا۔
انابیہ کے بیٹھنے کے بعد گاڑی کے دروازے بند ہوگئے۔
انابیہ ان راستوں سے انجان نہ تھی یہ اس کی اپنی دنیا تھی۔ وہ یہ سوچ رہی تھی کہ کیسے آج وہ اپنے والد کا سامنا کرے گی اور انہیں بتائے گی کہ اب وہ کس دنیا کی باسی ہے.
________________________
جبار اور انابیہ دونوں اس وقت بے حد خاموش تھے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے گاڑی میں دو نفوس بیٹھے ہی نہ ہوں۔جبار نے انابیہ کو دیکھا جو بلکل خاموش تھی اور اپنے ہاتھوں کو چھوڑ رہی تھی۔اس کے مخملی ہاتھ مہندی سے سج گئے تھے۔جبار نے اس کے ہاتھوں کو نرمی سے پکڑا۔
"شہزادی کیا ہوا آپ کیوں اتنی ناراض ہیں۔"
"میں ناراض نہی شہزادے۔بس مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ج میں بابا سے ملوں گی تو گھر واپس کیسے جا پاوں گی۔میں بابا سے بے انتہا محبت کرتی ہوں ۔وہ میرے بابا ہی نہی میرے دوست بھی ہیں۔ ماں کی وفات کے بعد انہوں نے جتنا سپورٹ مجھے کیا ہے کوئی کر ہی نہیں سکتا۔-------- مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب مجھے رات کو ماں کی یاد آیا کرتی تھی تو وہ میرے پاس ہی ہوتے تھے. انہوں نے کبھی مجھے یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میری والدہ جا چکی ہیں. “
” ہم آپ کو کبھی آپ کے والد سے بات کرنے سے نہیں روکیں گے مگر اب آپ کی ذمہ داری ہمارے لوگوں کی طرف بھی ہے. آپ ہماری بیوی ہیں اور ہمارے گھر کو سوانح بھی اب آپ کی ذمہ داری ہے جس سے آپ غافل نہیں ہو سکتی. “
” شہزادے میں آپ ایک بات پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ نے مجھے ہی کیوں چنا. “
اس کی بات پر جبار نے اس کا ہاتھ سامنے کیا جہاں پر نشان واپس اپنی حالت میں نیلا ہو چکا تھا.” آپ جانتی ہیں یہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ ہماری قسمت شروع سے ایک تھی. ہم نے آپ کو نہیں چنا ہماری قسمت نے آپ کو ہمارے لئے چنا ہے. آپ یہ بات ضرور کہہ سکتی ہیں کہ ہماری قسمت نے ایک عجیب طریقے سے آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے. مگر یقین مانیئے شہزادی ہم کبھی بھی آپ کو تکلیف نہیں دیں گے. آپ کی شادی اگر اس دنیا میں بھی ہوتی تو آپ اپنے والد کو چھوڑ کر جاتی. ایسا ہی سمجھ لیجئے کہ آپ کسی دوسرے ملک جا چکی ہیں اور اپنے والد سے ملنے آتی رہیں گی. “
جبار نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام اور پیار سے سہلایا.
_________________________________
گاڑیاں حویلی کے باہر آکر رکی جو پوری کی پوری روشن تھی. اسے شادی کے لیے سجایا گیا تھا. شجاع خان نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے پورے گھر کو ایسے سجایا تھا جیسے یہ دلہن ہو۔ انابیہ کے لیے جبار نے گاڑی سے باہر نکل کر دروازہ کھولا۔ گوہر اور ملکہ ان کے پیچھے سے آئی۔
جبار نے انابیہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے گاڑی سے باہر لے آ۔یا انابیہ کا لباس بہت زیادہ ہیوی تھا جس کی بدولت اسے چلنے میں مسئلہ ہو رہا تھا۔ گوہر نے بھی انابیہ کوئی طرف سے پکڑا اور جبار کو اشارہ کرکے کہا کہ وہ اسے سنبھال لیں گی۔
ان کے آتے ہی ملازم نے اندر جاکر شجاع اور تیمور کو خبر دی۔ شجاع خان صبح سے اپنی بیٹی کا انتظار کر رہے تھے وہ فورا سے بھاگتے ہوئے باہر آئے۔ بیٹی کو سامنے پا کر ان کے دل کو بے انتہا سکون ملا.
” بابا جان - - - - - - “
انابیہ فورا سے آگے بڑھیں اور اپنے باپ کے سینے سے لگ گئی. وہ رونا شروع ہوگی وہ نہیں جانتی تھی کہ اس وقت اس کا رونا جبار کو کتنی تکلیف دے رہا ہے. تیمور بھی باہر آیا اور بہن کو دیکھ کر اس کے دل میں بھی سکون کاگوشہ آگیا۔
" میری شہزادی بیٹی ٹھیک ہے نا اس کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا وہاں. “
شجاع نے اسے خود سے الگ کرکے پوچھا وہ اس کے چہرے کا ہر ایک نقش دیکھ رہے تھے کہ ان کی بیٹی تھیک تو ہے نا اسے کوئی نقصان تو نہیں ہوا۔
" میں ٹھیک ہوں بابا. آپ کو معلوم ہے میرا ولیمہ تھا آج وہاں. “
” شکریہ جبار شہزادے ہماری بیٹی کو ہمارے پاس لانے کیلئے. “
” اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں سسر صاحب آپ جانتے ہیں کہ ہم اپنے وعدے کے بہت پکے ہیں۔ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ ہم انہیں یہاں لاتے رہیں گے مگر آپ بھی یاد رکھیے کہ آپ نے بھی ہم سے ایک وعدہ کیا ہے. “
تیمور اس کی بات کو اکنور کرتا ہوا اپنی بہن کی طرف آیا۔" کیسی ہے میری شہزادی بہن. “
” میں ٹھیک ہوں بھیا اور میں نے آپ کو بہت یاد کیا ہے آپ جانتے ہیں. “
” میں نے بھی تمہیں بہت یاد کیا ہے معلوم ہے میں تو سوچ رہا تھا کہ اگر تم واپس نہ آئیں تو ہم کیسے رہیں گے تمہارے بغیر. “
شجاع خان نے جبار کے پیچھے کھڑے اس کے خاندان کو دیکھا تو فورا سے ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھے۔
" اسلام علیکم آپ لوگ جبار کے والدین میں سے ہیں. “
انہوں نے ملکہ کا سے سوال کیا جنہوں نے سلام کا جواب دیا ." جی بالکل میں جب آپ کی والدہ ہوں اور یہ بڑی بھابھی۔"
یہ بھی بول ہی رہے تھے کہ پیچھے سے بڑے سردار اور بڑے شہزادے آگئے.
میر ابوبکر کو دیکھتے ہی شجاع پہچان گئے یہ بالکل بھی نہیں بنتے تھے اب بھی ویسے ہی تھے.
” کیسے ہو شجاع تم؟"
میر ابوبکر نے بڑھ کر انہیں گلے لگایا تو شجاع نے بھی بڑے اچھے انداز سے انہیں جواب دیا.” بالکل ٹھیک ہیں میر آپ سنائیے بہت عرصے بعد دیکھ رہے ہیں ہم آپ کو۔ جبار نے اتنی جلدی کی ہماری بیٹی کے ساتھ ہم تو خود سوچ بھی نہیں سکے۔"
" اس سب کے لئے معذرت خواہ ہیں. مگر تم یہ بات جانتے ہو شجاع کے ان دونوں کا نکاح پچپن میں ہوگیا تھا. جو بھی ہوا جیسا بھی ہوا اس سب کے لئے جبار کو معاف کردو. ہم یہاں بڑی امید سے آئے ہیں کہ یہاں ہمارا ایک بہترین تعلق قائم ہوگا. “
” بالکل ہم نے اپنی بیٹی کو جب آپ کے ساتھ جانے کی اجازت بھی اسی دی ہے کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ اسے بہت خوش رکھے گا۔"
میرعثمان سے بھی یہ آگے بڑھ کر ملے تیمور اور چھوٹے بابا بھی باہر آگئے. ارمان اور اس کی والدہ بھی ان لوگوں سے ملے. انابیہ کی خالہ بھی ملکہ اور گوہر سے ملیں. انابیہ کی نظر اپنی دادی کے لئے بار بار دروازے پر جا رہی تھی۔ اسے سارہ اور دادی جان آتی ہوئی نظر آئیں یہ فورا ان کی طرف آئی اور دادی جان کے سینے سے لگ گئی۔
" دادی جان میری پیاری دادی جان کہاں تھی آپ دیکھیں نا میں آپ سب سے دور جا چکی ہوں۔"
" میری شہزادی بچی جو ہوا بہت برا ہوا. میں شجاع کو بہت پہلے سے کہا کرتی تھیں کہ تمہیں اس بات کا بتا دیں کہ تمہارا نکاح بچپن میں جبار شہزادے سے ہو چکا تھا۔ میری بچی تم ٹھیک تو ہو نا ان لوگوں نے تمہیں کچھ کہا تو نہیں . “
” نہیں دادی جان وہ لوگ بہت اچھے ہیں. خصوصا جبار کے گھر والے بہت اچھے ہیں ان لوگوں نے مجھے ایسے ہی رکھا ہے جیسے میں ان کی اپنی ہی بیٹی ہوں۔"
سارہ بھی آگے آئی اور اسے اپنے گلے سے لگایا۔" ٹھیک ہو نا تم گڑیا ہم تمہارے لئے بہت زیادہ پریشان تھے. “
” جی آپی میں بالکل ٹھیک ہوں. “
” ماشاءاللہ سے کتنی پیاری لگ رہی ہے یہ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کسی فیری ٹیل سے نکلی ہوئی شہزادی ہے۔"
سارہ نے اس کے پیارے چہرے پر ہاتھ پھیرا. انابیہ آج انسانوں کی دنیا سے بے انتہا مختلف لگ رہی تھی۔ انہیں اسے دیکھ کر یہی گمان ہو رہا تھا کہ یہ کسی کتاب سے نکل آئی ہے یا پرانے دور کی کوئی شہزادی ہے۔
" میں شہزادی ہی ہوں اس دنیا میں آپی۔ میرا ایک تاج ہے جو رنگ بدلتا ہے. جیسے میرا نشان ہے نہ نیلا ویسے ہی ہمارے محل کی تقریبا آدھے سے زیادہ چیزیں نیلی ہیں۔ وہاں پر پائے جانے والے درخت بھی نیلے ہیں اس پھول بھی نیلے ہی ہیں۔"
سارہ نے تجسس سے اس سے سوال کیا۔
" اب یہ ہم نے سن رکھا ہے کہ وہ لوگ انسان نہیں ہیں کیا یہ بات سچ ہے. “
انابیہ بولنے ہی والی تھی کہ اسے اپنا لیا ہوا عہد یاد آگیا۔" آپ سب کے لئے یہی جاننا بہت ضروری ہے کہ وہ اب ہمارے لوگ ہیں اور وہ ہمیں ایسے ہی عزیز ہیں جیسے آپ سب. “
جبار جو پیچھے کھڑا ہوا تھا اس کا جواب سن کر مطمئن ہوگیا اور اس کے پاس آیا.
" آپ سب کے لئے یہی جاننا ضروری ہے کہ وہ اب انابیہ شہزادی کا گھر ہے. ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ شہزادی اپنے فرائض بہت اچھے سے جانتی ہیں. “
جبار نے دادی اور سارہ کو جواب دیا اور انابیہ کی طرف بڑے پیار سے دیکھا۔
” بیٹا ہمیں چلنا چاہیے . سب لوگ ہوٹل میں ہمارا انتظار کر رہے ہیں ۔تم لوگ جانتے ہو کہ آج یہاں سے انابیہ کی رخصتی کریں گے۔ بے شک تم لوگ ولیمہ کر چکے ہو، مگر ہماری دنیا میں ہم لوگوں کو یہی بتائیں گے کہ آج ہی اس کی رخصتی ہوئی ہے۔"
"جی دادی جان آپ پریشان مت ہوں۔ہم اسی ارادے سے آئے ہیں۔آج شہزادی یہاں ہی رہیں گی۔آپ لوگوں کے ہاں رسم ہے نہ کہ بیٹی ماں باپ کے گھر آتی ہے شادی کے اگلے روز۔ہماری شادی تھوڑی عجیب ہوئی مگر ہم ہر رسم ادا کریں گے۔ "
جبار نے بہت احترام سے دادی صاحب کو کہا۔دادی صاحب بہت زیادہ حیران تھی جبار کو دیکھ کر۔وہ سمجھ رہی تھی کہ جبار شاید ان کی پوتی کے ساتھ بہت زیادہ ظلم کرے گا ۔مگر انہوں نے اسے بہت مختلف پایا۔
یہ لوگ ہوٹل کے لیئے نکل پڑے۔
________________________________
ہوٹل میں سب خاندان والے اتنے خوبصورت لڑکے کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔انابیہ سر تا پیر ہیروں سے لدی ہوئی تھی۔اس کے ہاتھ بے انتہا خوبصورت لگ رہے تھی۔سونے کے کنگن اور چوڑیاں اس کے ہاتھوں میں کھنک رہی تھی۔جبار اس کے ساتھ انابیہ کے دنیا کے لباس میں ہی ملبوس تھا۔
گرے رنگ کا پینٹ کوٹ اسے بے انتہا خوبصورت لگ رہا تھا جبکہ انابیہ کے نیلے اور سفید لباس سے یہ بہت پیارا میچنگ ہو رہا تھا۔ آپ لوگ باری باری اسٹیج پر آکر انہیں مبارکباد دے رہے تھے. جبار کو یہاں لوگوں میں بہت عجیب لگ رہا تھا یہ جب نھی انسانوں کی دنیا میں آتا تھا اسے ہمیشہ عجیب ہی محسوس ہوتا۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ بہت سے انسانوں کے دماغ کو پڑھتا تھا اور ان کے دماغ میں چلنے والی تمام باتیں اسے معلوم ہوتی تھی۔ اسے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ یہ انسان کے منہ پر کچھ اور بولتے ہیں اور دماغ میں کچھ اور سوچتے ہیں.
تیمور عنایہ کو اٹھائے ہوئے انابیہ کے پاس آیا. عنایہ کو انابیہ پہچان نہیں پائی تھی۔ کیونکہ اس سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
" انابیہ اس سے ملو یہ ہے میری بیٹی عنایہ۔ انایا بیٹا ہم نے آپ کو بتایا تھا نا کہ آپ کی پھوپھو ہیں یہ ہیں آپ کی پھوپھو جانی. “
جبار نے تیمور کے ہاتھ سے بچی کو لے لیا۔
" لاؤ تیمور اسے ہمیں دو کتنی پیاری ہے یہ۔"
جبار نے اسے گود میں بٹھا جبکہ انابیہ اس کے ہاتھ پکڑ کر چومنے لگی.
" کتنی پیاری ہے یہ بھیا - - - - - “
” بہت پیاری ہے آخر کو بیٹی کس کی ہے. تمہیں یاد ہے تم ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ بھیا جب بھی آپ کے بچے ہوں گے تو میں انہیں بہت ساری شرارتی سکھاؤں گی. کیا اب بھی تم اسے ایسے ہی شرارتی سکھاؤں گی. “
” بالکل بھی امی جب بھی آپ لوگوں سے ملنے آؤگی اس کے ساتھ بہت سارا کھیلا کرو گی. “
جبار تیمور کی طرف مڑا وہ جانتا تھا کہ یہ اپنی بہن سے بہت محبت کرتا ہے اور اس کے دماغ میں اس وقت ایک ہی بات چل رہی ہے کہ اگر اس کی بہن دوبارہ ان سے ملنے نہ آسکی تو یہ اس کے بغیر کیسے رہیں گے۔
" تیمور انابیہ کے لحاظ سے میں تمہارے تمام concern جانتا ہوں۔ دیکھو میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہاں پر بات فرسٹ کی آتی ہے۔ تم مجھے اپنا بھائی ہی سمجھو میں کبھی یہ نہیں سمجھوں گا کہ تم کوئی الگ انسان ہو. میں جب کوئی وعدہ کرتا ہوں تو اس کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہوں. تمہیں مجھ پر یقین ہونا چاہیے کہ میں تمہاری بہن کو تمہارے پاس لایا کروں گا. “
” بھیا آپ پریشان مت ہوں میں ملنے آیا کرو گی. میں وہاں پر خوش رہوں گی بھائی یہ لوگ بہت اچھے ہیں۔"
تیمور نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا.” بہت جلدی بڑی ہوگئی ہے ہماری گڑیا آج اگر ہماری والدہ زندہ ہوتی تو اس کو دیکھ کر بہت زیادہ خوش ہوتی. “
تیمور کے بات کرنے پر انابیہ کی آنکھوں سے آنسو ہونا شروع ہوگئے۔ جبار نے عنایہ کو تیمور کی گود میں دیا۔ خود یہ انابیہ کی طرف مڑا اور اس کے آنسو صاف کیے۔
" شہزادی جو چلے جاتے ہیں ان کو ہمیشہ اچھی یادوں میں ہی یاد رکھنا چاہیے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو ہم سے بچھڑ جاتے ہیں انہیں ایسے الفاظ میں یاد رکھیں کہ جب بھی انہیں یاد کیا جائے ہمارے دل میں ان کیلئے بے انتہا پیار بڑھ جائے. مگر جانے والے کے لئے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے رونا نہیں چاہیے. ہماری دعاؤں کی بہت ضرورت ہوتی ہے انہیں. ہم جانتے ہیں کہ انسان اپنے جذبات کو قابو نہیں کر سکتا اور بے اختیار اس کے آنسو نکل آتے ہیں. اگر ان آنسوؤں میں اچھی یادیں ہو تو وہ ایک خوبصورت لمحہ بن جاتا ہے."
جبار نے بہت خوبصورت بات کی۔ تیمور اس کی بہت سے بہت زیادہ ایمپریس ہوا . وہ سٹیج سے نیچے اترا اور مہمانوں سے ملنے کے لئے چلا گیا۔
گوہر اور سارہ اوپر آئی۔" انابیہ تم کھانا کھالو. وہاں سے تم بہت زیادہ تھک گئی ہو گی. پہلے ولیمہ پھر یہاں آکر یہ فنکشن۔"
" گوہر آپ ایسا کریے کہ ان لوگوں سے کہیں کسی کمرے میں کھانا لگا دیں. انابیہ بہت زیادہ تھکی ہوئی ہے۔"
انابیہ کی کمر جواب دے گئی تھی۔ساری رات بھی جبار نے اسے سونے نہیں دیا تھا۔صبح سے یہ کھن چکر بنی ہوئی تھی۔
کھانا کمرے میں لگا دیا گیا جبار اس کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا. ” شہزادی ہمیں بہت خوشی ہوئی کی آپ نے اپنا وعدہ نبھایا اور اپنی دنیا کے بارے میں لوگوں کو نہیں بتایا. آپ اگر اپنی ذمہ داری سمجھیں گی زندگی بہت آسان ہو جائے گی. “
اس نے روٹی کا نوالہ انابیہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔" جیسا کہ آپ کہتے ہیں جبار شہزادے کے آپ اپنے وعدوں میں بہت زیادہ پکے ہیں ویسے ہی ہم بھی اپنے وعدے نہیں توڑتے۔ جب آپ نے ہمیں ان لوگوں کی ذمہ داری دے دی ہے تو عوام سے یہ بات مت کریں ہم پیار کے بدلے پیار ہی دیتے ہیں نفرت نہیں“
” یہی تو بات ہے آپ میں جس سے آپ کسی بھی انسان کو متاثر کردیتی ہیں. میری شہزادی ہمیں بہت اہم کام کیلئے جانا ہے آپ اپنا بےانتہا خیال رکھیے گا کل دن میں ہم آپ کو لنچ کے بعد لینے آئیں گے. “
” کیا ہم دو دن اور نہیں رہ سکتے. “
” ہم تو شاید آپ کو اجازت دے دی مگر آپ کا نشان آپ کو اجازت نہیں دے گا. اب آپ جب تک ہمارے ساتھ نہیں ہوگی آپ اس دنیا میں نہیں رہ سکتی اور ہمیں یہاں کل کل ہی جانا ہے. ہمارے لئے بہت سارے کام وہاں پر پڑے ہوئے ہیں جو ہم نے پورے کرنے ہیں. آپ سمجھ رہی ہیں ایک شہزادی کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے. آپ نے اب ہمارا ساتھ نبھانا ہے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آپ کو آپ کے والدین سے پندرہ دن بعد ملاوانے لائیں گے۔"
" شکریہ شہزادے - - “
______________________________
جاری ہے
0 Comments
Please do not enter any spam link in the Comment Box.